ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے
یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
روز آتی ہے میرے پاس تسلی دینے
شب تنہائی، بتا! تُو میری کیا لگتی ہے
ایک فقط تُو ہے جو بدلا ہے دنوں میں ورنہ
آنکھ سے اشک گرا ہے سو میاں! ہاتھ اٹھا
تارہ ٹوٹے پہ جو کی جائے دعا، لگتی ہے
وہ جو ملتی ہی نہیں عالمِ بیداری میں
آنکھ لگتے ہی میرے سینے سے آ لگتی ہے
بات جتنی بھی ہو بیجا مگر اے شیریں سخن
جب تیرے لب سے ادا ہو تو بجا لگتی ہے
خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ فارؔس اکثر
یار کرتے ہیں جفا، ہم کو وفا لگتی ہے
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment