Friday 2 February 2018

ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے

ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے
یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
روز آتی ہے میرے پاس تسلی دینے
شب تنہائی، بتا! تُو میری کیا لگتی ہے
ایک فقط تُو ہے جو بدلا ہے دنوں میں ورنہ
لگتے لگتے ہی زمانے کی ہوا لگتی ہے
آنکھ سے اشک گرا ہے سو میاں! ہاتھ اٹھا
تارہ ٹوٹے پہ جو کی جائے دعا، لگتی ہے
وہ جو ملتی ہی نہیں عالمِ بیداری میں
آنکھ لگتے ہی میرے سینے سے آ لگتی ہے
بات جتنی بھی ہو بیجا مگر اے شیریں سخن
جب تیرے لب سے ادا ہو تو بجا لگتی ہے
خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ فارؔس اکثر
یار کرتے ہیں جفا، ہم کو وفا لگتی ہے

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment