درد بے کیف غم بے مزا ہو گیا
ہو نہ ہو کوئی مجھ سے خفا ہو گیا
بعدِ ترکِ تعلق یہ کیا ہو گیا
ربط پہلے سے بھی کچھ سوا ہو گیا
التفاتِ مسلسل بَلا ہو گیا
غم نے اس طرح گِن گِن کے بدلے لئے
مسکرانا بھی اک حادثہ ہو گیا
دل کو ترِکِ محبت پہ کیا کیا ہے ناز
لیکن ان کا اگر سامنا ہو گیا
زندگی کا یہ عالم ہے تیرے بغیر
شاخ سے پھول گویا جدا ہو گیا
اور بھی عشق کی جان پر بن گئی
حسن جب مبتلائے وفا ہو گیا
دل کچھ اس طرح دھڑکا تری یاد میں
میں یہ سمجھا ترا سامنا ہو گیا
عشق میں جان بھی دیدی میں نے خمار
آج حق زندگی کا ادا ہو گیا
خمار بارہ بنکوی
No comments:
Post a Comment