Saturday 3 February 2018

وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے

وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے 
اپنی ہی مشکلوں کو بڑھاتے رہے 
وہ اکیلے میں بھی جو لجاتے رہے 
ہو نہ ہو ان کو ہم یاد آتے رہے 
یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد 
دوستوں کے کرم یاد آتے رہے 
آنکھیں سوکھی ہوئی ندیاں بن گئیں 
اور طوفاں بدستور آتے رہے 
پیار سے ان کا انکار برحق، مگر 
لب یہ کیوں دیر تک تھرتھراتے رہے 
تھیں کمانیں تو ہاتھوں میں اغیار کے 
تیر اپنوں کی جانب سے آتے رہے 
کر لیا سب نے ہم سے کنارا، مگر 
ایک ناصح غریب آتے جاتے رہے 
مے کدے سے نکل کر جناب خمارؔ 
کعبہ و دیر میں خاک اڑاتے رہے 

خمار بارہ بنکوی

No comments:

Post a Comment