کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں
نادارئ نگاہ ہے اور زرد منظری
حسرت یہ رنگ کی ہے جو نادار سرخ ہیں
اب اس متاعِ رنگ کا اندازہ کیجیے
ہے بند و بست لطف مغاں، رنگ کھیلیے
میخانہ سرخ ہے مے و میخوار سرخ ہیں
جا بھی فقیہِ سبز قدم! اب یہاں سے جا
میں تیری بات پی گیا، پر یار سرخ ہیں
طغیان رنگ دیکھیے اس لالہ رنگ کا
پیش از ورود، کوچہ و بازار سرخ ہیں
بسمل ہیں جوش مستئ حالت میں سینہ کوب
وہ رقص میں ہے اور در و دیوار سرخ ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment