Thursday 1 February 2018

کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں

کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں
نادارئ نگاہ ہے اور زرد منظری
حسرت یہ رنگ کی ہے جو نادار سرخ ہیں
اب اس متاعِ رنگ کا اندازہ کیجیے
شوق طلب سے جس کے خریدار سرخ ہیں
ہے بند و بست لطف مغاں، رنگ کھیلیے
میخانہ سرخ ہے مے و میخوار سرخ ہیں
جا بھی فقیہِ سبز قدم! اب یہاں سے جا
میں تیری بات پی گیا، پر یار سرخ ہیں
طغیان رنگ دیکھیے اس لالہ رنگ کا
پیش از ورود، کوچہ و بازار سرخ ہیں
بسمل ہیں جوش مستئ حالت میں سینہ کوب
وہ رقص میں ہے اور در و دیوار سرخ ہیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment