Thursday 1 February 2018

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے

تو بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے 
تیرے ساتھ تِری یاد آئی کیا تو سچ مچ آئی ہے 
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا 
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے 
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس 
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے 
حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے 
ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے 
ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میں 
سوز رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے 
ہم دونوں مل کر بھی دلوں کی تنہائی میں بھٹکیں گے 
پاگل کچھ تو سوچ یہ تُو نے کیسی شکل بنائی ہے 
عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے 
کیاری میں پانی ٹھہرا ہے دیواروں پر کائی ہے 
حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام 
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ہرجائی ہے 
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا 
جوں ہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے 
ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ہوں 
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment