نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو تب مر جائیں
اداس لوگ ہیں، ممکن ہے بے سبب مر جائیں
ہماری نیند کا دورانیہ ہے روز افزوں
کوئی بعید نہیں ہے کہ ایک شب مر جائیں
یہ مرنے والوں کو رونے کا سلسلہ نہ رہے
یہ اہل ہجر شفا یاب تو نہیں ہوں گے
کوئی دوا ہو کہ جس سے یہ جاں بہ لب مر جائیں
یہ موتیا تو نہیں ہے، سفید لاشیں ہیں
ابھر کے سطح پہ آتے ہیں خواب، جب مر جائیں
ہماری نبض سمجھ لے، ہمارے ہاتھ میں ہے
تو صرف حکم دے، بس دن بتا کہ کب مر جائیں
نہ کوئی روکنے والا، نہ دریا دور، مگر
سنا ہے، پیاس سے مرنا ہے مستحب، مر جائیں
یقین کر کہ کئی بار ایک دن میں عمیرؔ
ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں؛ یار! اب مر جائیں
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment