سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا
خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا
وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزتِ نفس لٹ گئی ہے
میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا
خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی
سب اپنی اپنی صدا کے پرچم سپرد شب کر کے سو چکے تھے
بس ایک میں ہی مہیب لمحوں کے لشکروں میں گھرا ہوا تھا
جسے وہ سانسوں کی لوریوں سے مرے بدن میں سلا گئی تھی
پلٹ کے آئی تو وہ چہکتا شریر بچہ مرا ہوا تھا
یہ ایک پرچھائیں سی جو صدیوں سے میرے ہم راہ چل رہی ہے
یہی مرا حرف ابتدا ہے میں جس سے اک دن جدا ہوا تھا
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment