Saturday, 3 February 2018

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا

سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا 
خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا 
وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزتِ نفس لٹ گئی ہے 
میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا 
خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی 
کہ میرے بستر پہ لاش بن کر مرا ہی سایہ پڑا ہوا تھا 
سب اپنی اپنی صدا کے پرچم سپرد شب کر کے سو چکے تھے 
بس ایک میں ہی مہیب لمحوں کے لشکروں میں گھرا ہوا تھا 
جسے وہ سانسوں کی لوریوں سے مرے بدن میں سلا گئی تھی 
پلٹ کے آئی تو وہ چہکتا شریر بچہ مرا ہوا تھا 
یہ ایک پرچھائیں سی جو صدیوں سے میرے ہم راہ چل رہی ہے 
یہی مرا حرف ابتدا ہے میں جس سے اک دن جدا ہوا تھا

نثار ناسک

No comments:

Post a Comment