تشنگی جسم کی مٹی میں گڑی ملتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ پیاسوں سے لڑی ملتی ہے
آنکھیں تاریک، نصیب ان سے زیادہ تاریک
ہم اگر ہاتھ بھی مانگیں تو چھڑی ملتی ہے
اس بِنا پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ جڑواں ہیں
اہلِ خانہ مجھے اب وقت نہیں دے پاتے
ویسے ہر سال جنم دن پہ گھڑی ملتی ہے
زندگی خستہ و پامال ملی تھی مجھ کو
جیسے رستے پہ کوئی چیز پڑی ملتی ہے
سانس چڑھ جاتی ہے آغاز سفر میں اپنی
میرے جیسوں کو کہاں ریل کھڑی ملتی ہے
ابر دیکھوں تو برس پڑتی ہیں آنکھیں نجمیؔ
تھل کا باسی ہوں، مقدر سے جھڑی ملتی ہے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment