ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
گزار دیں گے اسی خوشگوار یاد کے ساتھ
یہ ذوق و شوق فقط لطفِ داستاں تک ہے
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ
زمانہ جتنا بکھیرے، سنورتا جاؤں گا
اسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈوبا ہوں اعتماد کے ساتھ
بڑھا گیا مِرے اشعار کی دلآویزی
تھا لطفِ ناز بھی شامل کسی کی داد کے ساتھ
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی محسنؔ
سفر میں جیسے رہے کوئی گردباد کے ساتھ
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment