روشنی ختم ہوئی، اہلِ نظر باقی ہیں
جنہیں دستار میسر ہے، وہ سر باقی ہیں
کاٹ لیتے ہیں کبھی شاخ، کبھی گردنِ دوست
اب بھی چند ایک روایاتِ سفر باقی ہیں
اپنے ہمسایوں کا غم بھی ہے اور اپنا غم بھی ہے
سخت جانی کی بھلا اس سے بڑی کیا ہو مثال
بے شجر شاخ ہے اور برگ و ثمر باقی ہیں
ہو مبارک تمہیں تخلیق پہ تمغے کی سند
میرے حصے کے ابھی زخمِ ہُنر باقی ہیں
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment