Thursday, 15 January 2015

وہ اجنبی اجنبی سے چہرے

وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی منظر دھواں دھواں سے
یہ عکسِ داغِ شکستِ پیماں، وہ رنگِ زخمِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے
یہ سنگریزے عداوتوں کے، وہ آبگینے سخاوتوں کے
دلِ مسافر قبول کر لے، ملا ہے جو کچھ جہاں جہاں سے
بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نِسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے
میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے، کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا، مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
ابھی محبت کا اسمِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جانِ محسنؔ
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment