وہ اجنبی اجنبی سے چہرے وہ خواب خیمے رواں دواں سے
بسے ہوئے ہیں ابھی نظر میں سبھی منظر دھواں دھواں سے
یہ عکسِ داغِ شکستِ پیماں، وہ رنگِ زخمِ خلوصِ یاراں
میں غمگساروں میں سوچتا ہوں کہ بات چھیڑوں کہاں کہاں سے
یہ سنگریزے عداوتوں کے، وہ آبگینے سخاوتوں کے
بچھڑنے والے بچھڑ چلا تھا تو نِسبتیں بھی گنوا کے جاتا
تیرے لئے شہر بھر میں اب بھی میں زخم کھاؤں زباں زباں سے
میری محبت کے واہموں سے پرے تھا تیرا وجود ورنہ
جہاں جہاں تیرا عکس ٹھہرا میں ہو کے آیا وہاں وہاں سے
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے، کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا، مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
ابھی محبت کا اسمِ اعظم لبوں پہ رہنے دے جانِ محسنؔ
ابھی ہے چاہت نئی نئی سی، ابھی ہیں جذبے جواں جواں سے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment