لیے بیٹھا ہے دل اک عزمِ بے باکانہ برسوں سے
کہ اس کی راہ میں ہیں کعبہ و بُت خانہ برسوں سے
دِل سادہ نہ سمجھا، ماسوائے پاک دامانی
نگاہِ یار کہتی ہے کوئی افسانہ برسوں سے
گریزاں تو نہیں تجھ سے مگر تیرے سوا دل کو
مجھے یہ فکر سب کی پیاس، اپنی پیاس ہے ساقی
مجھے یہ ضد کہ خالی ہے مِرا پیمانہ برسوں سے
ہزاروں مہتاب آئے، ہزاروں آفتاب آئے
مگر ہمدم وہی ہے ظلمتِ غم خانہ برسوں سے
وہی مجرؔوح سمجھے سب جسے آوارۂ ظلمت
وہی ہے ایک شمعِ سرخ کا پروانہ برسوں سے
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment