Tuesday 13 January 2015

تم اس دور سے گزرے ہو ناں

تم اس دور سے گزرے ہو ناں
وہ رُت، جس میں جل جاتی ہیں آنکھیں
تم پر بھی گزری ہے
وہ شب، جو مہتاب سے ٹپکے
آنسو آنسو، شبنم شبنم
وہ شب مجھ پر بھی اُتری ہے
وہ دن، جب گھڑیاں سو جائیں
لمحے پتھر کے ہو جائیں
وہ دن تم نے بھی کاٹا یے
دونوں کے جسموں، رُوحوں میں
یکساں دُکھ کا سنّاٹا ہے
پھر کیوں مجھ سے پوچھتے ہو تم
میری پلکیں کیوں پُرنم ہیں
تم اس دور سے گزرے ہو ناں

اعتبار ساجد 

No comments:

Post a Comment