Monday, 26 January 2015

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ ان کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں
نہیں ترکِ محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں
یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں
یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لیے ملوا رہے ہیں
تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی کچھ لوگ دھوکا کھا رہے ہیں
تمہیں چاہیں گے جب چھِن جاؤ گی تو
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں
کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گِنوا رہے ہیں
وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مِری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں
دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں
تِری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں
یہ جذبۂ عشق ہے یا جذبۂ رحم
تِرے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں
عجب کچھ ربط ہے تم سے تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں
وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مِری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment