اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں
اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں
دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب
تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں
سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے
دل جزیرے پر ہے اس کی روشنی
اک ستارے سے محبت ہے ہمیں
اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو
مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں
پھر اسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ
پھر اسی در پر سکونت ہے ہمیں
ہم تحیّر کھول دیں گے آنکھ سے
کہ میسّر تیری قربت ہے ہمیں
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment