Thursday 8 January 2015

اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں

اب کہاں اس کی ضرورت ہے ہمیں
اب اکیلے پن کی عادت ہے ہمیں
دیکھیے جا کر کہاں رکتے ہیں اب
تیری قربت سے تو ہجرت ہے ہمیں
سانس لیتی ایک خوشبو ہے جسے
وِرد کرنے کی اجازت ہے ہمیں
دل جزیرے پر ہے اس کی روشنی
اک ستارے سے محبت ہے ہمیں
اب ذرا سرگوشیوں میں بات ہو
مہرباں لہجے کی عادت ہے ہمیں
پھر اسی چوکھٹ کی دل کو ہے تڑپ
پھر اسی در پر سکونت ہے ہمیں
ہم تحیّر کھول دیں گے آنکھ سے
کہ میسّر تیری قربت ہے ہمیں

ناہید ورک

No comments:

Post a Comment