وفا کے بھیس میں کوئی رقیبِ شہر بھی ہے
حذر، کہ شہر کا قاتل طبیبِ شہر بھی ہے
وہی سپاہِ سِتم خیمہ زن ہے چاروں طرف
جو میرے بخت میں تھا اب نصیبِ شہر بھی ہے
اُدھر کی آگ اِدھر بھی پہنچ نہ جائے کہیں
اب اُس کے ہجر میں روتے ہیں اُس کے گھائل بھی
خبر نہ تھی کہ وہ ظالم حبیبِ شہر بھی ہے
یہ راز نعرۂ منصور ہی سے ہم پہ کُھلا
کہ چوبِ منبرِ مسجد صلیبِ شہر بھی ہے
کڑی ہے جنگ کہ اب کے مقابلے پہ فرازؔ
امیرِ شہر بھی ہے اور خطیبِ شہر بھی ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment