Sunday 11 January 2015

کہتے ہیں کوئی مول نہیں دل کا مگر ہے

کہتے ہیں کوئی مول نہیں دل کا، مگر ہے
ہلکا سا تبسّم ہے، اچٹتی سی نظر ہے
ہاں عشق نہیں مگر ان کو مگر اس کا اثر ہے
تسکین کی صورت نہ اِدھر ہے نہ اُدھر ہے
اپنے لیے آئینہ بنایا میرے دل کو
مجھ پہ یہ بڑا ہی کرمِ آئینہ گر ہے
منزل پہ اڑائے لیے جاتی ہیں ہوائیں
ہر ذرّہ میری خاک کا سرگرمِ سفر ہے
اے ساقئ مے خانہ! عنایت کی نظر ہو
تھوڑی سی ملے مجھ کو بھی، شیشے میں اگر ہے
کلیوں کا تکلّم ہے تو پھولوں کا تبسّم
کس درجہ دِلآویز گلستاں کی سحر ہے
اس زلف کے پھندے میں نصیرؔ آ گئے آخر
آپ ان کے ہوئے، ان کی بلا آپ کے سر ہے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment