Friday 30 January 2015

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا​

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا​
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا​
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر، لیکن​
بے نیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا​
اس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے​
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا​
بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند​
شب پرستوں سے بھی امیدِ سحر رکھتا تھا​
مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لیے​
ان سے کس طرح کہوں، میں بھی تو گھر رکھتا تھا​
اس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسن​ؔ
یہ تاثر نہ دیا، میں بھی سِپر رکھتا تھا​
محسن بھوپالی​

No comments:

Post a Comment