Monday, 26 January 2015

ذات اپنی گواہ کی جائے

ذات اپنی گواہ کی جائے
بند آنکھوں نگاہ کی جائے
ہم تو بس اپنی چاہ میں ہیں مگن
کچھ تو اس کی بھی چاہ کی جائے
ایک ناٹک ہے زندگی جس میں
آہ کی جائے، واہ کی جائے
دل! ہے اس میں تِرا بھلا کہ ت،ری
مملکت بے سپاہ کی جائے
ملکہ جو بھی اپنے دل کی نہ ہو
جونؔ! وہ بے کلاہ کی جائے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment