زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غلام گردشوں میں ساری عمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روِش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
بس اتنا ہو کہ، شغلِ ناؤ نوش مستقل رہے
قلم کو سرنگوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
کچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
بجھے پڑے ہیں خود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بس ایک قدم پڑا تھا میرا بے محل، سو آج تک
میں دربَدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی
چراغِِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غلام گردشوں میں ساری عمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روِش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
بس اتنا ہو کہ، شغلِ ناؤ نوش مستقل رہے
قلم کو سرنگوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
کچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
بجھے پڑے ہیں خود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بس ایک قدم پڑا تھا میرا بے محل، سو آج تک
میں دربَدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment