جو غم شناس ہو، ایسی نظر تجھے بھی دے
یہ آسماں غمِ دیوار و در تجھے بھی دے
سخن گلاب کو کانٹوں میں تولنے والے
خدا سلیقۂ عرضِ ہُنر تجھے بھی دے
خراشیں روز چنے اور دل گرفتہ نہ ہو
پرکھ چکی ہے بہت مجھ کو یہ شبِ وعدہ
اب انتظار زدہ چشمِ تر تجھے بھی دے
ہے وقت سب سے بڑا منتقم، یہ دھیان میں رکھ
نہ سہہ سکے گا یہی غم، اگر تجھے بھی دے
سبھی شہادتیں تیرے خلاف ہیں محسنؔ
یہ مشورہ دلِ خُودسر مگر تجھے بھی دے
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment