Friday 16 January 2015

میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف

میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف
حق بات کی تو کوئی کہاں تھا میری طرف
میں مر گیا وہیں کہ صفِ قاتلاں سے جب
خنجر بدست تُو بھی رواں تھا میری طرف
اب پھر رہا ہوں جسم کے ٹکڑے لیے ہوئے
شاید ہجومِ چاراں گراں تھا میری طرف
یہ اور بات، تُو نے زمانے کی بات کی
روئے سخن تو اے مِری جاں تھا میری طرف
میں لشکرِ الم کے مقابل ہوں سرخرو
اس معرکے میں دل سا جواں تھا میری طرف
میں نے ستم گروں کو پکارا ہے خود فرازؔ
ورنہ کسی کا دھیان کہاں تھا میری طرف

احمد فراز

No comments:

Post a Comment