میں چپ رہا تو سارا جہاں تھا میری طرف
حق بات کی تو کوئی کہاں تھا میری طرف
میں مر گیا وہیں کہ صفِ قاتلاں سے جب
خنجر بدست تُو بھی رواں تھا میری طرف
اب پھر رہا ہوں جسم کے ٹکڑے لیے ہوئے
یہ اور بات، تُو نے زمانے کی بات کی
روئے سخن تو اے مِری جاں تھا میری طرف
میں لشکرِ الم کے مقابل ہوں سرخرو
اس معرکے میں دل سا جواں تھا میری طرف
میں نے ستم گروں کو پکارا ہے خود فرازؔ
ورنہ کسی کا دھیان کہاں تھا میری طرف
احمد فراز
No comments:
Post a Comment