بتوں کی یاد میں، یادِ خدا معلوم ہوتی ہے
نظر اپنی حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے
محبت میں جفا عینِ وفا معلوم ہوتی ہے
خطا ان کی بھی، خود اپنی خطا معلوم ہوتی ہے
بہت مشکل ہے منزلِ عشق کی توبہ، ارے توبہ
کِیا ہے قتل مجھ کو ان کی دزدِیدہ نِگاہی نے
قضا بھی اپنی پابندِ حیا معلوم ہوتی ہے
بہت بھاگے، بہت دوڑے، بہت سوچا کِئے، لیکن
محبت کی محبت ہی دوا معلوم ہوتی ہے
غزل سُن کر سحرؔ کی سب لگے بے ساختہ کہنے
کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا معلوم ہوتی ہے
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment