Thursday 15 January 2015

یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور

یہ عشق بھی کیا ہے اسے اپنائے کوئی اور 
چاہوں میں کسی اور کو یاد آئے کوئی اور 
اس شخص کی محفل کبھی برپا ہو تو دیکھو 
ہو ذکر کسی اور کا، شرمائے کوئی اور 
اے ضبطِ انا! مجھ کو یہ منظر نہ دکھانا 
دامن ہو کسی اور کا، پھیلائے کوئی اور 
سر نوکِ سناں پر ہے، بدن رزقِ زمین ہے 
مقتل سے علم میرا اٹھا لائے کوئی اور 
سینے میں عجب آگ ہے اک عمر سے پنہاں 
خواہش ہے کے اس آگ کو دہکائے کوئی اور 
مجھ پر نہیں کھلتا میرا سوچا ہوا اک لفظ 
مطلب مجھے اس لفظ کا سمجھائے کوئی اور

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment