Friday, 9 January 2015

پھر کسی غم میں گرفتار نظر آتی ہو

پھر کسی غم میں گرفتار نظر آتی ہو
کیوں کئی روز سے بے زار نظر آتی ہو
کیا کسی شوخ سہیلی نے تمہیں ٹوک دیا
یوں جو محجوب و دل فگار نظر آتی ہو
کس کی فرقت میں پریشاں ہیں تمہارے گیسو
ہجر میں کس کے عزا دار نظر آتی ہو
کس نے تجدیدِ محبت کی جسارت کی تھی
میں نہیں، تم بھی خطا وار نظر آتی ہو
تم نے اظہارِ محبت کا اثر دیکھ لیا
تم بھی آمادۂ اظہار نظر آتی ہو
میں تمہاری روشِِ لطف و ستم دیکھ چکا
تم ہر اک رنگ میں دلدار نظر آتی ہو
تم سمجھتی ہو کہ ہر قید سے آزاد ہوں میں
مجھ سے پوچھو تو گرفتار نظر آتی ہو
زندگی خونِ تمنا ہے مگر تم مجھ کو
محوِ رنگینئ افکار نظر آتی ہو
دیو زادوں کی یہ دنیا ہے اور اس دنیا میں
تم بہت نازک و خود دار نظر آتی ہو
صرف ماحول ہی کیا، صرف روایات ہی کیا
خود سے بھی بر سرِ پیکار نظر آتی ہو
ہاں تو اس بات کا اب تک نہ ملا مجھ کو جواب
کیوں کئی روز سے بے زار نظر آتی ہو

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment