Friday, 9 January 2015

غروب مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں

غروبِ مہر کا ماتم ہے گلستانوں میں
نسیمِ صبح بھی شامل ہے نوحہ خوانوں میں
جہاں تھے رقصِ طرب میں کبھی در و دیوار
بلائیں ناچ رہی ہیں اب ان مکانوں میں
اندھیری رات، بھیانک کھنڈر، مُہیب فضا
بھٹک رہا ہوں اجل کے سیہ خانوں میں
یہ آمد آمدِ طوفانِ شب، خدا کی پناہ
طیورِ شام دبک جائیں آشیانوں میں
ندیمِ شب! کوئی افسانۂ فسون و طلسم
کہ زندگی کی جھلک ہے انہی فسانوں میں
یہ سائیں سائیں کی آواز ہے کہ موت کی ہوک
جو گونجتی ہے شیاطین کے ترانوں میں
نہیں ہے شہرِ وفا کی تباہیوں کا گِلہ
مگر وہ لوگ جو رہتے تھے ان مکانوں میں
عجیب تھیں یہ غریبوں کی بستیاں، لیکن
غریب رہ نہ سکے ان غریب خانوں میں

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment