سُن میری سہیلی، بات تو سُن
کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن
اک شام کی لالی اوڑھ کے جب
اک یاد میں خود کو توڑ کے جب
میں آئینہ بن کر کھڑی رہی
گویا اس ہجر کے زیور میں
مہ و سال کے دیپک بجھ بھی گئے
اک صورت دل میں گڑی رہی
مرا وقت وہیں پر تھم سا گیا
بس گرد کی صورت آنکھوں میں
اک شام کا لمحہ جم سا گیا
ہے رستہ ایک جدائی کا
صحرا میں آبلہ پائی کا
امید کا ریشم بنتی رہی
ہر کرچی دل کی چنتی رہی
پھر بھی میں ضد پر اڑی رہی
بکھرے پتوں کی صورت بس
ویراں آنگن میں پڑی رہی
سب لیکھ کے پورے ہو گئے گُن
اب کھو گئی عشق قفس کی دھن
تجھ کو معلوم ہے یہ بازی
کیونکر اور کیسے ہاری میں
وہ روشن تارا فلک کا ہے
اندھی تقدیر کی ماری میں
سُن میری سہیلی بات تو سُن
کٹی کیسے عمر کی رات تو سُن
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment