جُز تِرے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر اے دوست! پرانے میرے
تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
خلق کی بے خبری ہے کہ مِری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
کاش تُو بھی مِری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تُو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے
کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سُن لی ہے مِری، آج خدا نے میرے
تُو ہے کس حال میں اے زود فراموش مِرے
مجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے
چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جانِ فرازؔ
جز تِرے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment