سب میں رہتے ہو مگر سب سے جدا لگتے ہو
اور بت ہوں گے، مگر تم تو خدا لگتے ہو
تم جب آتے ہو تو، آرام بھی آ جاتا ہے
درد بھی تم ہو مگر تم ہی دوا لگتے ہو
جانِ دل، جانِِ نظر، جانِ تمنّا تم ہو
حُسن نظارہ طلب اور حیا ضبط طلب
کسی خاموش سوالی کی صدا لگتے ہو
جان و ایمانِ سحرؔ تم ہو، خدا شاہد ہے
کیا کہوں اس کے سوا اور کہ کیا لگتے ہو
سحر دہلوی
(کنور مہندر سنگھ بیدی)
No comments:
Post a Comment