دل کو آمادۂ فریاد کیا تھا میں نے
خوب آئے ہو، ابھی یاد کیا تھا میں نے
پھڑپھڑاتی ہے مِری روح بدن میں اب تک
اک پرندہ کبھی آزاد کیا تھا میں نے
چھوڑ آیا ہوں سمندر کی نگہبانی میں
شام کا وقت، پرندہ نہ ستارہ نہ چراغ
کس حوالے سے اسے یاد کیا تھا میں نے
طِفل کا طِفل رہا مکتبِ جاں میں پھر بھی
دہر میں وقت کو استاد کیا تھا میں نے
دل میں اک وہم سا گزرا تھا اچانک عاصمؔ
خوب آئے ہو، ابھی یاد کیا تھا میں نے
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment