میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے
میرے حرفوں میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب میرا ایمان بھی ہے
میر و غالب نہ سہی، پھر بھی غنیمت جانو
مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے
میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا
سایۂ دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ
میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا
میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا
طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا
دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
میں نے ہر زخم، قبا سے بھی زیادہ پہنا
میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا
ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی
تمغۂ جراًت و اعزازِ حکومت کی طرح
کُھل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح
قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت
کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح
مجھ پہ کڑکی ہیں کمانیں مرے غمخواروں کی
میرے اشکوں کا تماشا سر بازار ہوا
میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری
میرا دل وجہِ عذابِ در و دیوار ہوا
عشق میں عزتِ سادات بھلا کر اکثر
میر صاحب کی طرح میں بھی گنہگار ہوا
اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعائیں لے کر
میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے
اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر
سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے
حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے
میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے
مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے
میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے
لفظ و معنی کے تقاضوں سے الجھ کر اکثر
میرے ہاتھوں مرا مجروح قلم ٹوٹا ہے
کربِ نا قدرئ یاراں کہ بھنور میں گِھر کر
بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے
میرے اعادہ کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے
میری بکھری ہوئی رسوائی ہے شہرت میری
میرے صحرا کی تمازت مرا سرمایہ ہے
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment