ملنے کی خوشی تھی تو بچھڑ جانے کا غم بھی
دنیائے محبت میں کوئی چیز تھے ہم بھی
کم ہو گی کس دن یہ تیری مشقِ ستم بھی
اے حُسنِ سِتم کیش! کبھی مجھ پہ کرم بھی
وہ لطفِ مجسّم بھی، سراپائے کرم بھی
اچھا ہے مرے دل کو وہ لے جائیں اڑا کے
کمبخت کسی طور سے یہ درد ہو کم بھی
کہتے ہیں کہ کیا آئیں ترا گھر ہے بہت دور
دشوار ہیں اس راہ میں دو چار قدم بھی
دل دامِ محبت میں گرفتار ہوا پے
ہیں حلقۂ زنجیر تری زلف کے خم بھی
ساقی تری اس وسعتِ اخلاق پہ قرباں
اک گوشے میں بیٹھے ہیں یہاں شیخِ حرم بھی
اب آپ کی باتوں پہ یقیں آئے تو کیوں کر
ہیں حرفِ غلط آپ کے وعدے بھی، قسم بھی
ہے جامِ سفالیں ہی میرے واسطے اچھا
منظور نہیں دِل کے عِوض ساغرِ جَم بھی
کہتے ہیں نصیرؔ اہلِ نظر دیکھ کے مجھ کو
اس گُزرے زمانے میں غنیمت ہے یہ دَم بھی
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment