Monday 19 January 2015

اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا

اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مِژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق، سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع نے گریہ جو سر کیا
رویا میں اس قدر کہ مجھے آب لے گیا
احوال اس شکارِ زبوں کا ہے جائے رحم
جس ناتواں کو مفت نہ قصاب لے گیا
منہ کی جھلک سے یار کے بے ہوش ہو گئے
شب ہم کو میرؔ پرتوِ مہتاب لے گیا

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment