سُوئے میکدہ نہ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کہ کلی نے کھِل کر کیا گلستان مُعطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ کھُلے کھُلے سے گیسُو انہیں لاکھ تو سنوارے
میرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تیری راہگزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نگاہ سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو ہوائے گلستاں نے میرے دل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اٹھاتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ بجا کہ کلی نے کھِل کر کیا گلستان مُعطر
مگر آپ مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی
یہ کھُلے کھُلے سے گیسُو انہیں لاکھ تو سنوارے
میرے ہاتھ سے سنورتے تو کچھ اور بات ہوتی
گو حرم کے راستے سے وہ پہنچ گئے خدا تک
تیری راہگزر سے جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
آغا حشر کاشمیری
No comments:
Post a Comment