آیا نہ اگر نامہ و پیغام کسی کا
آخر ہے کوئی روز میں یاں کام کسی کا
دیں جان تو ہم غیر کو دو بوسہ ہستم ہے
لے جائے کوئی اور، ہوا نام کسی کا
اس چشم کی گردش سے ہو دل کیونکر نہ برباد
گھر چھوڑے ہے کب گردشِ ایام کسی کا
وہ کرتے ہیں آرام سدا غیر کے گھر میں
کیا کام انہیں جائے ہو آرام کسی کا
شب ہالہ مہِ رشک سے گردوں پر نہ نکلا
چھلا جو پڑا دیکھا لبِ بام کسی کا
ساقی نہ کھُلا بھید کہ اوندھا ہے فلک کیوں
مُدّت سے ہے اوندھا ہوا بس جام کسی کا
جو ہے وہ مِرے نام سے ہے عشق میں آگاہ
بدنام ظفرؔ نہ ہو غرض نام کسی کا
بہادر شاہ ظفر
آخر ہے کوئی روز میں یاں کام کسی کا
دیں جان تو ہم غیر کو دو بوسہ ہستم ہے
لے جائے کوئی اور، ہوا نام کسی کا
اس چشم کی گردش سے ہو دل کیونکر نہ برباد
گھر چھوڑے ہے کب گردشِ ایام کسی کا
وہ کرتے ہیں آرام سدا غیر کے گھر میں
کیا کام انہیں جائے ہو آرام کسی کا
شب ہالہ مہِ رشک سے گردوں پر نہ نکلا
چھلا جو پڑا دیکھا لبِ بام کسی کا
ساقی نہ کھُلا بھید کہ اوندھا ہے فلک کیوں
مُدّت سے ہے اوندھا ہوا بس جام کسی کا
جو ہے وہ مِرے نام سے ہے عشق میں آگاہ
بدنام ظفرؔ نہ ہو غرض نام کسی کا
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment