یہ کس عذاب سے خائف مِرا قبِیلہ ہے
کہ خون مَل کے بھی چہروں کا رنگ پِیلا ہے
یہ کیسی زہر بھری بارشیں ہوئیں اب کے
کہ میرے سارے گلابوں کا رنگ نِیلا ہے
ہو کس طرح سے محبت کی گفتگو کہ ابھی
گداگرانِ سخن کو نوید ہو کہ یہاں
سبک سری ہی فقط رزق کا وسِیلہ ہے
فرازؔ اسی لیے ہم زندگی پہ مرتے ہیں
کہ یہ بھی زندگی کرنے کا ایک حِیلہ ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment