عشق کا شہر بھی دیکھو کیا نیرنگ بھرا ہے
اب دیوانے کا دامن بھی سنگ بھرا ہے
اب یہ کُھلا ہے کتنی پرانی دُشمنیاں تھیں
یاروں میں ہر ایک کا خنجر زنگ بھرا ہے
میرے بدل جانے پر تُم کو حیرت کیوں ہے
قتل گہوں کا رستہ اوروں سے کیا پوچھیں
لہو کے چھینٹوں سے اِک اِک فرسنگ بھرا ہے
بولتی آنکھوں کی چُپ بھی قاتل ہے، لیکن
اُس کے سکوتِ چشم میں جو آہنگ بھرا ہے
کچھ تو فرازؔ اپنے قصے بھی ایسے ہی تھے
اور کچھ کہنے والوں نے بھی رنگ بھرا ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment