لے لے سکون قلب بھی، جو چاہے دے سزا مجھے
لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے
بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر
اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مِری دکھا مجھے
دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی
میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے
میں محوِ دیدِ یار تھا، کچھ کہہ کے وہ گزر گیا
“کیسا عجیب لفظ تھا، جو یاد نہ رہا مجھے”
میری نظر کے تیر سے، کانٹوں کے دل کو پھول کر
دے دے یہ کیمیا گری، یہ حسن کر عطا مجھے
لیکن فصیلِ شہر سے اپنی نہ کر جدا مجھے
بجلی کی زد میں آشیاں، نوکِ سناں پہ ہے جگر
اب اور منتظر نہ رکھ، منزل مِری دکھا مجھے
دستک تھا دے رہا کوئی، دہلیز پر امنگ کی
میں ہی اسیرِ ذات تھا، خود ہی نہ در کھلا مجھے
میں محوِ دیدِ یار تھا، کچھ کہہ کے وہ گزر گیا
“کیسا عجیب لفظ تھا، جو یاد نہ رہا مجھے”
میری نظر کے تیر سے، کانٹوں کے دل کو پھول کر
دے دے یہ کیمیا گری، یہ حسن کر عطا مجھے
ذوالفقار نقوی
No comments:
Post a Comment