Tuesday, 13 January 2015

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

گیت

کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گزرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی

یہ چاند بیتے زمانوں کا آئینہ ہو گا
بھٹکتے اَبر میں چہرہ کوئی بنا ہو گا
اداس راہ کوئی داستاں سُنائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

برستا بھیگتا موسم دُھواں دُھواں ہو گا
پگھلتی شمع پہ دل کا میرے گماں ہو گا
ہتھلیوں کی حِنا، یاد کچھ دلائے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

گلی کے موڑ پہ سُونا سا کوئی دروازہ
ترستی آنکھوں سے رَستہ کسی کا دیکھے گا
نگاہ دُور تلک جا کے لَوٹ آئے گی
کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی

بشر نواز

No comments:

Post a Comment