فنِ تشہیر سے کوئی بھی بے گانہ نہیں ملتا
جریدوں میں مگر حرفِ حکیمانہ نہیں ملتا
ہمارے عہد سے تم کوہکن تک اِک نظر ڈالو
یہ کارِ عشق ہے، اِس میں محنتانہ نہیں ملتا
یہ کیسا دشت، کیسی سرزمینِ بے روایت ہے
محبت پیشگاں پر ابتری کا دور آیا ہے
کہ ان کو پیشکش ملتی ہے، بیعانہ نہیں ملتا
اچٹتی سی نظر بے چین ہے شاداب کرنے کو
کئی دن سے مگر وہ ننگِ ویرانہ نہیں ملتا
کبھی تنہا جو ہوتا ہے خیالوں میں نہیں ہوتا
وہ ملتا ہے مگر خود سے جُداگانہ نہیں ملتا
عجب معیار ہے وعدہ خلافی کا محبت میں
زرِ آزار تو ملتا ہے، ہرجانہ نہیں ملتا
فنا بنیادِ ہستی پر نہ اِترانا، کہ بعض اوقات
وسائل ہوں مگر مہلت کا پروانہ نہیں ملتا
عجیب یکسانیت سی زندگی میں آ گئی محسنؔ
بہت دن سے کوئی موضوعِ نظمانہ نہیں ملتا
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment