Monday, 19 January 2015

کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دل راز تھا

کئی دن سلوک وداع کا، مِرے درپئے دلِ راز تھا
کبھو درد تھا، کبھو، داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو دار تھا
دمِ صبح بزمِ خوش جہاں، شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُور تھا، جو پتنگ تھا سو غُبار تھا
دلِ خستہ جو لہو ہو گيا، تو بَھلا ہوا کہ کہ کہاں تک
کبھو سوزينہ سے داغ تھا، کبھو دردِ غم سے فِگار تھا
دلِ مضطرب سے گزر گئے، شب و وصل اپنی ہی فکر ميں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا، نہ شکيب تھا نہ قرار تھا
جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا، تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہيں وہ نازکِ بے خطا، کسو کے کيلجے کے پار تھا
يہ تمہاری ان دنوں دوستاں، جس کے غم ميں ہے خونچکاں
وہی آفتِ دلِ عاشقاں، کسو، وقت ہم سے بھی ياد تھا
نہيں تاں دل کی شکستگی، يہی درد تھا يہی خستگی
اسے جب سے ذوقِ شکار تھا، اسے زخم سے سروکار تھا
کبھو جائے گی جو ادھر صبا تو يہ کہيو اس سے کہ بے وفا
مگر ايک ميرِؔ شکستہ پا، تِرے باغِ تازہ ميں خار تھا

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment