اب لوگ جو دیکھیں گے تو خواب اور طرح کے
اس شہر پر اتریں گے عذاب اور طرح کے
اب کے تو نہ چہرے ہیں نہ آنکھیں ہیں نہ لب ہیں
اس عہد نے پہنے ہیں نقاب اور طرح کے
اب کوچۂ قاتل سے بُلاوا نہیں آتا
سو تیر ترازو ہیں رگِ جاں میں تو پھر کیا
یاروں کی نظر میں ہیں حساب اور طرح کے
اس درد کے موسم نے عجب آگ لگائی
جسموں میں دہکتے ہیں گلاب اور طرح کے
واعظ سے فرازؔ اپنی بنی ہے نہ بنے گی
ہم اور طرح کے ہیں جناب اور طرح کے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment