دستِ منعم مری محنت کا خریدار سہی
کوئی دن اور میں رُسوا سرِ بازار سہی
پھر بھی کہلاؤں گا آوارۂ گیسوئے بہار
میں ترا دام خزاں لاکھ گرفتار سہی
جست کرتا ہوں تو لڑ جاتی ہے منزل سے نظر
غیرتِ سنگ ہے ساقی یہ گُلوئے تشنہ
تیرے پیمانے میں جو موج ہے تلوار سہی
میں نے دیکھی ہے اُسی میں غمِ دوراں کی جھلک
بے خبر رنگ جہاں سے نگہِ یار سہی
اُن سے بچھڑے ہوئے مجروحؔ زمانہ گزرا
اب بھی ہونٹوں میں وہی گرمئ رُخسار سہی
مجروح سلطانپوری
No comments:
Post a Comment