Tuesday 13 January 2015

گلہ نہیں ہے اگر میں تری نظر میں نہیں

گِلہ نہیں ہے اگر میں تِری نظر میں نہیں
ستارہ کوئی بھی اِس وقت اپنے گھر میں نہیں
تِری طرح مِری دنیا میں اِختیار کِسے
مِری طرح کوئی بے بس تِرے نگر میں نہیں
کِیا ہے فکرِ نشیمن سے برق نے آزاد
خدا کا شُکر کہ اَب میں کسی خطر میں نہیں
اَب احتساب کسی کا کوئی کرے کیسے
بھنّور ہے کشتی میں، کشتی بھنّور میں نہیں
کوئی امیر ہو اپنی بلا سے کوئی غریب
سوال اتنا ہے کیوں فرق خیر و شر میں نہیں
اس ارتقاء کا نہ جانے زوال کیا ہو گا
بشر کی صفت آج کے بشر میں نہیں
چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ ہارنا واصفؔ
کہ منزلوں کا تصوّر میرے سفر میں نہیں

واصف علی واصف​

No comments:

Post a Comment