Saturday, 17 January 2015

چل نہ پائے رہگزر کے ساتھ ساتھ

چل نہ پائے رہگزر کے ساتھ ساتھ
منزلوں کے راہبر کے ساتھ ساتھ
وہ کسی اجڑے چمن کی یاد تھی
پتے پتے اور شجر کے ساتھ ساتھ
لحظہ لحظہ میں اسی آنگن میں تھا
قریہ قریہ اس نظر کے ساتھ ساتھ
پوچھتے ہو کیا مِری تقدیر سے
کون ہے آشفتہ سر کے ساتھ ساتھ؟
کیا خبر انجام کیسا اب کے ہو
ہے گھٹا کالی سحر کے ساتھ ساتھ
پتھروں کا چل رہا ہے کاروبار
ناتواں اک شیشہ گر کے ساتھ ساتھ
سوچ کر نقویؔ گزرنا اس طرف
خون لگتا ہے ہنر کے ساتھ ساتھ

ذوالفقار نقوی

No comments:

Post a Comment