Saturday 17 January 2015

زخم امید بھر گیا کب کا

زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
اب تو منہ اپنا مت دکھاؤ مجھے
ناصحو! میں سُدھر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان! مر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
میرا فہرست سے نکال دو نام
میں تو خود سے مُکر گیا کب کا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment