Thursday, 8 January 2015

پھول کلیوں تتلیوں کو، طائران شہر کو

پھول کلیوں، تتلیوں کو، طائرانِ شہر کو

کھا گئی کس کی نظر زندہ دلانِ شہر کو

رات کو بستر بنا کر خاک پر سوتے ہوئے

اوڑھ لیتا ہوں بدن پر آسمانِ شہر کو

چھپ نہیں سکتی حقیقت دودِ آتش کی طرح

روک سکتا ہے کہاں کوئی زبانِ شہر کو

نُوحؑ کا طوفان ہے تُو اشک سمجھا ہے جسے

ڈھونڈتا رہ جائے گا نام و نشانِ شہر کو

جان لے لی ہے کسی کی بھوک نے فٹ پاتھ پر

یہ خبر پہلے ملی راحتؔ سگانِ شہر کو


راحت سرحدی 

No comments:

Post a Comment