Thursday 8 January 2015

دیکھے گی مری حسرت دیدار کسی دن

دیکھے گی مری حسرتِ دیدار کسی دن

ہوتے ہوئے زینہ تری دیوار کسی دن

اندر سے مجھے کھود رہی ہے مری وحشت

نکلے گا یہیں سے مرا کردار کسی دن

وہ آنکھ غنیمت ہے خدا رکھے سلامت

مے خانہ تو ہو جائے گا مسمار کسی دن

لگتا ہے کہ میں حد سے نکل جاؤں گا آگے

ایسی ہی رہی گر مری رفتار کسی دن

پیروں سے پھسل جائیں نہ گھوڑے کی رکابیں

ہاتھوں سے نکل جائے نہ تلوار کسی دن

اقرار پہ تکرارِ سے تنگ آ کے یہ خلقت

کر دے نہ ترے حکم سے انکار کسی دن

مسند پہ تجھے روند کے رکھ دے نہ زمانہ

مٹی میں ملا کر تری دستار کسی دن

رستے میں ترے پھول بچھاتی ہوئی دنیا

بن جائے نہ راحتؔ کہیں دیوار کسی دن


راحت سرحدی 

No comments:

Post a Comment