کیا دل سے تیز قافلۂ اہلِ درد تھا
میں نے نظر اُٹھائی تو صحرا ہی گرد تھا
تا دُور رشکِ دشت تھا احوالِ شہرِ دوست
ہر آدمی بگولہ تھا، اور فرد فرد تھا
سب خانُماں خراب ہوئے خانُماں پرست
سب صرفِ فصلِ عشق ہوا، اب کہاں وہ بات
جب تک لہو تھا مجھ میں مِرا رنگ زرد تھا
پتھرا گئی سب اس کی خُنک تابئ سخن
اس بار گفتگو میں مِرا لہجہ سرد تھا
غالب نے سونپ دی مجھے عاصمؔ عروسِِ شعر
“حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا”
لیاقت علی عاصم
No comments:
Post a Comment