جب دھوپ مجھے پیکرِ آزار بناوے
سایہ بھی میری راہ میں دیوار بناوے
لوگوں پہ بھرم کھل بھی چکا اس کی کشش کا
اب خود کو وہ بےسود پراسرار بناوے
سر اپنا ہتھیلی پہ لیے سوچ رہا ہوں
ملبوس کو اس طور سے تقسیم کریں ہم
کچھ میرا کفن کچھ تیری دستار بناوے
جی ہار کے پھرتا ہے تو قاتل سے یہ کہہ دو
آ پھر دلِ نادان تجھے دلدار بناوے
وہ تیرا مقدار میری راہ کہ اکثر
سورج کے مقابل صفِ اشجار بناوے
اس دور کے فنکار کی خواہش ہے کہ محسنؔ
پانی میں کوئی دائرۂ پرکار بناوے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment